Sunday, October 25, 2015
Wednesday, October 21, 2015
سہگل کو سلام
دنیا سے رواداری اٹھتی جا رہی ہے- ہر جگہ یہی حال ہے - امریکی یونیورسٹیوں میں گولیاں چل رہی ہیں - پشاور کے اسکول میں بچوں کو بھونا جا رہا ہے - شام و عراق میں گلے کٹ رہے ہیں - دھماکے ہو رہے ہیں - دادری و شملہ میں ہندو دا عش بھی اپنی بد نما شکل دکھا رہی ہے - اخلاق مر رہے ہیں - انسانیت مرحوم ہو رہی ہے
ایک ایسے وقت جب پورے ملک میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے ، سیاہ رات میں تیز و تند ہواؤں کے درمیان اک دیا روشن ہوا ہے - اس دیے نے امیدوں کے کئی چراغ جلاے - اس دیے کو روشن کرنے والی کوئی اور نہیں نین تارا سہگل ہیں - نہرو کی بھانجی نین تارا سہگل - جنہوں نے ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری ، اقلیتوں پرزیادتیوں اور دانشوروں کے قتل پر صداے احتجاج بلند کی اور اپنا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ واپس کر دیا - کئی دوسرے ادیبوں نے بھی انکی آواز پر لبیک کہا - ممتا کے شاعر منور رانا نے بھی تقلید کی
ہندوستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے - نظریے ہند پر حملے ہو رہے ہیں - اندیشے نہیں حقیقت ہے کہ ملک کو ہندو راشٹر کی ڈگر پر لیجایا جا رہا ہے - سیکولر ہندوستان کا نحیف و لاغر جسم بستر مرگ پرپڑا ہے - ہندوتوا کا دیواس ادھ مرے جسم کے اطراف ٹنڈو کر رہا ہے - ایسے میں بوڑھی سہگل نے آواز اٹھائی - ڈگماتے قدموں سے ایک دشوار سفر شروع کیا - کئی معقول ذہن بھی انکے ساتھ ہو لئے - ادیبوں ، شاعروں کا یہ قافلہ چھوٹا سہی لیکن اس کے حوصلے بڑے اور ارادے پاکیزہ ہیں - یہ ایک پکار ہے جس پر ہم وطنوں کا جواب ، ملک کے مستقبل کی سمت طے کریگا - اس بر وقت بانگ درا کے لئے سہگل کو سلام
کیا اس قافلے کو منزل ملے گی - کیا یہ اپنے نیک مقصد میں کامیاب ہوگا - کیا روادار ہندوستان بچے گا - ان سوالوں سے قطع نظر ان با ضمیروں کی یہ کاوشیں قابل قدر ہیں - نکتہ یہ نہیں ہے کہ یہ مٹھی بھر لوگ کیا کر لیں گے - بلکہ یہ ہے اس نازک وقت کون کہاں کھڑا ہے - اور کس نے انسانیت کا فرض نبھا یا - یہ ہم سب کے محاسبہ کا بھی وقت ہے
حساس دلوں کی یہ کوششیں کس حد تک ثمر آورثابت ہونگی - اس کا اندازہ بہار کے نتائج سے ہو جائیگا - یہ انتخابات ریاست کے شعور کا امتحان ہیں جو ملک کے مزاج کا پتہ دیں گے
گزشتہ سال کے لوک سبھا انتخابات کے بعد سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار کی ڈور ناگپور منتقل ہو چکی ہے - کئی دہوں سے جس نظام کے منصوبے بناے گئے تھے ، ان پر عمل شروع ہو گیا ہے - ہر ادارے کا بھگوا کرن کیا جا رہا ہے - نصاب بدلے جا رہے ہیں - منتر پڑھ وائے جا رہے ہیں - وندے ماترم ، گیتا اور یوگ کے منکر ، غدار ٹہر رہے ہیں - دادری ، اس جنونی تہذیبی یلغار کا ایک سنگین اور تشویشناک موڑ ہے
اخلاق کے گھر بچھڑا کٹا ہے ، فرج میں گوشت رکھا ہے ، سب گاؤں والے جمع ہو جائیں " - مندر سے اعلان ہوتا ہے - اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہندوستان کے ماتھے پر ایک اور بد نما داغ ہے
مودی کے غیر روادار ہندوستان میں یہ تنہا واقعہ نہیں ہے - جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں خبر ای ہے کہ شملہ کے قریب دادری کو دہرا یا گیا ہے - ادھم پور میں بھی بیف پر ایک نوجوان کی موت ہوئی ہے - کم و بیش اسی وقت دستور کا حلف لینے والے ایک چیف منسٹر نے فتویٰ دیا کہ مسلمان ہندوستان میں رہ سکتے ہیں ، شرط یہ ہے کہ بیف کھانا چھوڑ دیں ! آر ایس ایس کے جریدے نے ویدوں کے حوالے سے شنک بجا دیا کہ گاے کاٹنے والوں کا قتل جائز ہے - یہ ہم کہاں آ گئے - پتھر کا دور کہنا پتھر کے دور کی توہین ہوگی - نہرو کا ہندوستان تو ایسا نہیں تھا - گاندھی نے تو ایسے ہندوستان کا خواب نہیں دیکھا تھا ، جہاں دہشت کا راج ہو - جہاں کٹر قوم پرستی کا بول بالا ہو - جہاں ہوش کی باتوں کی سزا موت ہو
ہندو دھرم تو یہ نہیں سکھاتا - سہگل نے سچ کہا ہے - ہندتوا ، ہندو ازم کی بدصورت شکل ہے - وہ خود بھی تو ہندو مت کی پیرو ہیں ، پر ہندتوا کے خلاف لڑائی کے ہر اول دستہ میں کھڑی ہیں
دادری واحد وجہ نہیں ہے جس پر سہگل اور ساتھی چیخ اٹھے - مودی اور بھاگوت کے ہندوستان میں کلبرگی جیسے معقولیت پسند ادیب کو موت کی نیند سلایا گیا - توہم پرستی کے خلاف آواز اٹھانے والے دھابولکر کو گولی ماری گئی - فرسودہ نظریات کو ٹھوکر مار نے پر پنسارے کا بھی یہی حشر کیا گیا - بیچارے جانتے نہیں تھے کہ یہ دور عقل و ہوش کی باتوں کا نہیں ، قدیم ہندوستان میں پلاسٹک سرجری کی واہ واہی کرنے کا ہے - بیف بین کے مطالبات کی آواز میں آواز ملانے کا ہے - ہمارے کئی علماء بھی تو یہی کر رہے ہیں - شاید مصلحت کا تقاضہ ہے - ہان کاٹجو جیسے کچھ سر پھرے ہیں - جو کچھ حوصلہ دکھا رہے ہیں - ورنہ ماحول تو ایسا ہے کہ لاکھ مسلمان مر جائیں ، ایک گاے نہیں کٹنی چاہیے - ہر طرف بیف کا شور ہے - ایک سو تیس کروڑ کے ملک میں کوئی دوسرا مسلہ ہی نہیں - ڈیڑھ سال سے یہی کچھ ہو رہا ہے - کوئی ٹھوس کام نہیں - کبھی بیف تو کبھی یوگا - کبھی لو جہاد تو کبھی گھر واپسی - کبھی ہندوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کے مشورے
کوئی یہ نہیں پوچھ رہا ہے کہ دال دو سو روپے کیلو کیوں ہو گئی - پیاز کیوں رلا رہی ہے - کسان کیوں مر رہے ہیں - کم بارش سے کیسے نمٹا جائیگا - للت گیٹ کا کیا ہوا - اور وہ وعدے کہاں گئے - باتیں ہو رہی ہیں تو صرف بیف کی - دادری کی
غنڈہ گردی اب سڑکوں ، چوراہوں تک محدود نہیں رہی - قانون ساز ایوانوں تک پہنچ چکی ہے - جموں و کشمیر اسمبلی میں ایک آزاد رکن کو پیٹ دیا گیا - ایسے واقعات سے وادی میں احساس بیگانگی پھر بڑھنے لگا - کہیں یہ سوال بھی اٹھنے لگے ہیں کہ کیا دو قومی نظریہ ہی صحیح تھا جسے اندرا گاندھی نے خلیج بنگال میں ڈبونے کا دعوی کیا تھا - یہ حالات کوئی دل خوش کن تصویر پیش نہیں کرتے - بلکہ ڈراتے ہیں، بعد امنی سے ، نراج سے ، دہشت گردی سے - دہشت گردی جو ظلم اور نا انصافی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے - زعفرانیوں کی نادانیاں نہیں روکیں تو کچھ نہ کچھ گل ضرور کھلا ینگی -اور اس کا خمیازہصرف سنگھیوں کو نہیں ، پورے ملک کو بھگتنا پڑے گا
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
Monday, October 12, 2015
Sulaiman Khateeb – The Ghalib of Deccani poetry
When I think of Deccani poetry I think of Sulaiman Khateeb.
For Deccani language the collection of his poems ‘Kewde ka ban’ is like what ‘Deewan e Ghalib’ is for standard Urdu.
Sulaiman Khateeb lost his parents at a very young age and struggled a lot in his early life.
His poetry is a bitter reflection of what he might ve gone through in his struggling days.
His poem ‘Roti’ is a masterpiece explaining the bitter truths of the society where everyone strives for just one thing – the bread.
Here goes some lines about the significance of ‘roti’ in our society……….
دنیا میں قتل عام ہے روٹی کے واسطے
شمشیر بے نیام ہے روٹی کے واسطے
گھونگھرو طواف کرتے ہیں روٹی کے گرد ہی
کوٹھے کا اہتمام ہے روٹی کے واسطے
زاہد کی ہر دعا میں ہے روٹی کا تذ کرہ
بدنام یہ غلام ہے روٹی کے واسطے
Thursday, October 8, 2015
Thursday, October 1, 2015
مودی ، مارک زوکربرگ اور وزیر اعظم کا دورہ
میرے اور کیمرے کے درمیان کوئی نہیں آ سکتا ، مارک زوکر برگ بھی نہیں" - فیس بک کے بانی کو وزیر اعظم مودی کے دھکے پر کئی لطیفے بن رہے ہیں - جب سے مودی کی وزارت اعظمی اور انکے بیرونی دورے شروع ہوے ہیں ، یہ چہ میگوئیاں بھی چل پڑی ہیں کہ وہ عہدے کا وقار نہیں رکھ رہے ہیں - اگر کسی کو انکی شخصیت کے بارے میں شبہ تھا تو وہ فیس بک ہیڈ کوارٹرز میں پیش آنے والے اس واقعہ سے دور ہو جانا چاہیے
مودی کے حلیہ دورے میں یہ تنہا واقعہ نہیں ، جس نے انکے معیار کا پتہ دیا ہے - اپنے سابقہ دوروں کی طرح ، اس بار بھی انہوں نے بیرونی سرزمین پر نا پسندیدہ سیاست کی - سب سے پہلے آئر لینڈ میں اشلوک سے استقبال پر ، انہوں نے ملک کے سیکولر سٹوں پر چوٹ کی - حکمرانان عالم کے قبلے، امریکہ پہنچتے ہی وہ دیوانے سے ہو گئے - ملک کی اگلی پچھلی خامیاں گنوائیں - خود کو ہندوستان کے نجات دہندہ کے طور پر نمایاں کیا - کانگریس میں کیڑے نکالے - داماد کے کرپشن کی بات کی - ہاں ، للت گیٹ اور ویاپم اسکام انھیں نظر نہیں آیا
کیمرے کےدرمیان حائل ہونے پر مارک زوکر برگ کا بازو پکڑ کر کھینچنے کے علاوہ فیس بک ہیڈ کوارٹرز میں ایک اور ڈرامہ بھی ہوا - 'شہنشاہ جذبات' مودی ، اپنی معمر ماں کو یاد کر کے رو پڑے - وہ زندہ سلامت ماں ، جسے وہ ملک میں یاد نہیں کرتے - جسے وہ وزیر اعظم کی قیام گاہ میں رہنے کا سکھ نہیں دے سکے - شاید غریب الوطن این آر آئز کے درمیان ماں کو یاد کرنے کی فضیلت و فوائد کچھ زیادہ ہیں - مارک زوکر برگ یہ تماشہ دیکھ کر ششدر رہ گئے - شاید وہ سوچنے لگے کہ کیا مہمان کے انتخاب میں ان سے غلطی ہوئی ہے
مودی جہاں بھی جاتے ہیں ، بڑا دھوم دھڑاکا کرتے ہیں - سلی کان ویلی میں بھی یہی ہوا - ہمیشہ کی طرح چھپن انچ کے سینے والے نے تزک و احتشام کے درمیان ، اپنی کارکردگی کا ڈھول پیٹا - فیس بک و ٹویٹر جنریشن کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی - ملک کی زمینی حقیقتوں سے دور یہ لوگ شاید چند گھنٹوں کی مستی کے لئے جمع ہوتے ہیں - ان میں سے کسی نے مودی سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ نے اب تک کیا کیا ہے
آپ کی تخت نشینی کو ڈیڑھ سال ہو چکا ہے - گنگا اب بھی میلی ہے - کالا دھن جہاں تھا ، وہیں ہے - غریبوں کے کھاتے میں پندرہ لاکھ تو کجا ، پندرہ روپے نہیں آے - محترم وزیر اعظم صاحب ! ، زیرو بیلنس کھاتے کی پاس بک سے کسی کی غریبی نہیں جاتی
این ڈی اے دور میں مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ پیاز و دالیں اشیاۓ تعیش بن گئیں - بین الاقوامی منڈی میں فیول کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ آپ عوام کو نہیں دیتے - اچھے دنوں کا دور دور تک پتہ نہیں ، جنکا بہت شہرہ تھا
ان ڈیڑھ سال میں آپ نے بیرونی دوروں اور یوگ ، گیتا ، گاؤ رکھشا کے سوا کیا ہی کیا ہے - ہاں سوچھ بھارت کے نام پر تصویریں بنوائیں ہیں - تصویریں جو آپکا کا پہلا عشق یا شاید جنون ہے
پہلے کرپشن کے معاملے سامنے آتے تھے ، تو کم از کم استعفے کے ڈرامے ہوتے ہوتے تھے ، کچھ چہرے بدلتے تھے ، لیکن یہاں تو معاملہ ہی اور ہے - دوسروں سے مختلف و منفرد ہونے کا دعویٰ کرنے والی جماعت کے وزیروں کے لئے کوئی جواب دہی نہیں، کوئی احتساب نہیں - نہ سشما ہٹیں ، نہ راجے - سمرتی بھی کرسی سے چپکی ہوئیں ہیں - گوپی ناتھ منڈے کی دختر بھی مہاراشٹرا کابینہ میں برقرار ہیں - یہ کیسے لوگ ہیں - خود شیشے کے گھروں میں رہتے ہیں ، سنگ ہاتھوں میں لئے پھرتے ہیں
نرگسیت کے مرض میں مبتلا 'سیلفی وزیر اعظم ' کے دورے آئر لینڈ و امریکہ میں ، خود نمائی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا - صحافتی اصطلاح میں کہیں تو پورے دورے میں ایک ہیڈلائن نہیں تھی
مودی نے آئر لینڈ میں چند گھنٹوں کے توقف کے دوران وہاں کی قیادت سے ملاقات کی - نیو یارک میں عالمی رہنماؤں بشمول یار بارک کے ساتھ میٹنگز کیں - جنرل اسسمبلی اور کلائمیٹ چینج سمٹ سے خطاب کیا - وہی غریبی ہٹانے ، دہشت گردی سے لڑنے کی روایتی باتیں ہوئیں - وہی زبانی جمع خرچ ہوا - آلودگی سے اٹے ہندوستان کے وزیر اعظم نے ماحول کے تحفظ کے لئے تجاویز دیں
ماحول کی تبدیلی پر چوٹی کانفرنس کے دوران مودی نے نواز شریف سے دور سے ہی علیک سلیک کی - یہ خیر سگالی کا تبادلہ پاکستانی وزیر اعظم کی پہل پر ہوا - ایک یہ انتہاہ ہے اور ایک وہ انتہاہ تھی جب آپ نے مودی نے اپنی حلف برداری میں سب سے پہلے نواز شریف کو مدعو کیا تھا - کیا کوئی درمیانی راستہ نہیں ہو سکتا - کیا دونوں ملک مل بیٹھ کر مسائل حل نہیں کر سکتے - تجارت نہیں کر سکتے - آپ تو ہر دم تجارت کی بات کرتے ہیں
مودی کے ہر بیرونی دورے میں بزنس لیڈرس کے ساتھ میٹنگ کو خاصی اہمیت حاصل ہوتی ہے - وہ ہر جگہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کی تبہلیغ کرتے ہیں - میک ان انڈیا کا پرچار کرتے ہیں ، جس دن ہمارے حکمراں میک ان انڈیا کے بجاے ، میک انڈیا پر توجہ دیں گے ، سرمایہ خود بخود ہمارے پاس اے گا ، ہمیں اپنا کشکول کہیں لیجانا نہیں پڑے گا ' کیونکہ سرمایہ وہیں آتا ہے ، جہاں امن ہو ، سلامتی ہو
ہندوستانی معیشت کسی مودی یا من موہن کی محتاج نہیں - یہ اپنے آپ میں بے پناہ امکانات رکھتی ہے - ایک سو تیس کروڑ کی آبادی ، ملک پر بوجھ کے بجاۓ ایک بڑی منڈی بن گئی ہے - یہاں سب سے زیادہ صارفین ہیں - یہاں سب سے بڑی ورک فورس ہے - یہاں سب سے زیادہ نوجوان ہیں - ضرورت ہے تو صرف امن و سلامتی کی ضمانت اور بہتر انفرا سٹرکچر کی
ذرہ نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
Subscribe to:
Posts (Atom)