Wednesday, October 21, 2015

سہگل کو سلام‎

دنیا سے رواداری اٹھتی جا رہی ہے- ہر جگہ یہی حال ہے - امریکی یونیورسٹیوں میں گولیاں چل رہی ہیں - پشاور کے اسکول میں بچوں کو
بھونا جا رہا ہے - شام و عراق میں گلے کٹ رہے ہیں - دھماکے ہو رہے ہیں - دادری و شملہ میں ہندو دا عش بھی اپنی بد نما شکل دکھا رہی ہے - اخلاق مر رہے ہیں - انسانیت مرحوم ہو رہی ہے ایک ایسے وقت جب پورے ملک میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے ، سیاہ رات میں تیز و تند ہواؤں کے درمیان اک دیا روشن ہوا ہے - اس دیے نے امیدوں کے کئی چراغ جلاے - اس دیے کو روشن کرنے والی کوئی اور نہیں نین تارا سہگل ہیں - نہرو کی بھانجی نین تارا سہگل - جنہوں نے ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری ، اقلیتوں پرزیادتیوں اور دانشوروں کے قتل پر صداے احتجاج بلند کی اور اپنا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ واپس کر دیا - کئی دوسرے ادیبوں نے بھی انکی آواز پر لبیک کہا - ممتا کے شاعر منور رانا نے بھی تقلید کی ہندوستان ایک نازک دور سے گزر رہا ہے - نظریے ہند پر حملے ہو رہے ہیں - اندیشے نہیں حقیقت ہے کہ ملک کو ہندو راشٹر کی ڈگر پر لیجایا جا رہا ہے - سیکولر ہندوستان کا نحیف و لاغر جسم بستر مرگ پرپڑا ہے - ہندوتوا کا دیواس ادھ مرے جسم کے اطراف ٹنڈو کر رہا ہے - ایسے میں بوڑھی سہگل نے آواز اٹھائی - ڈگماتے قدموں سے ایک دشوار سفر شروع کیا - کئی معقول ذہن بھی انکے ساتھ ہو لئے - ادیبوں ، شاعروں کا یہ قافلہ چھوٹا سہی لیکن اس کے حوصلے بڑے اور ارادے پاکیزہ ہیں - یہ ایک پکار ہے جس پر ہم وطنوں کا جواب ، ملک کے مستقبل کی سمت طے کریگا - اس بر وقت بانگ درا کے لئے سہگل کو سلام کیا اس قافلے کو منزل ملے گی - کیا یہ اپنے نیک مقصد میں کامیاب ہوگا - کیا روادار ہندوستان بچے گا - ان سوالوں سے قطع نظر ان با ضمیروں کی یہ کاوشیں قابل قدر ہیں - نکتہ یہ نہیں ہے کہ یہ مٹھی بھر لوگ کیا کر لیں گے - بلکہ یہ ہے اس نازک وقت کون کہاں کھڑا ہے - اور کس نے انسانیت کا فرض نبھا یا - یہ ہم سب کے محاسبہ کا بھی وقت ہے حساس دلوں کی یہ کوششیں کس حد تک ثمر آورثابت ہونگی - اس کا اندازہ بہار کے نتائج سے ہو جائیگا - یہ انتخابات ریاست کے شعور کا امتحان ہیں جو ملک کے مزاج کا پتہ دیں گے گزشتہ سال کے لوک سبھا انتخابات کے بعد سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار کی ڈور ناگپور منتقل ہو چکی ہے - کئی دہوں سے جس نظام کے منصوبے بناے گئے تھے ، ان پر عمل شروع ہو گیا ہے - ہر ادارے کا بھگوا کرن کیا جا رہا ہے - نصاب بدلے جا رہے ہیں - منتر پڑھ وائے جا رہے ہیں - وندے ماترم ، گیتا اور یوگ کے منکر ، غدار ٹہر رہے ہیں - دادری ، اس جنونی تہذیبی یلغار کا ایک سنگین اور تشویشناک موڑ ہے اخلاق کے گھر بچھڑا کٹا ہے ، فرج میں گوشت رکھا ہے ، سب گاؤں والے جمع ہو جائیں " - مندر سے اعلان ہوتا ہے - اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہندوستان کے ماتھے پر ایک اور بد نما داغ ہے مودی کے غیر روادار ہندوستان میں یہ تنہا واقعہ نہیں ہے - جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں خبر ای ہے کہ شملہ کے قریب دادری کو دہرا یا گیا ہے - ادھم پور میں بھی بیف پر ایک نوجوان کی موت ہوئی ہے - کم و بیش اسی وقت دستور کا حلف لینے والے ایک چیف منسٹر نے فتویٰ دیا کہ مسلمان ہندوستان میں رہ سکتے ہیں ، شرط یہ ہے کہ بیف کھانا چھوڑ دیں ! آر ایس ایس کے جریدے نے ویدوں کے حوالے سے شنک بجا دیا کہ گاے کاٹنے والوں کا قتل جائز ہے - یہ ہم کہاں آ گئے - پتھر کا دور کہنا پتھر کے دور کی توہین ہوگی - نہرو کا ہندوستان تو ایسا نہیں تھا - گاندھی نے تو ایسے ہندوستان کا خواب نہیں دیکھا تھا ، جہاں دہشت کا راج ہو - جہاں کٹر قوم پرستی کا بول بالا ہو - جہاں ہوش کی باتوں کی سزا موت ہو ہندو دھرم تو یہ نہیں سکھاتا - سہگل نے سچ کہا ہے - ہندتوا ، ہندو ازم کی بدصورت شکل ہے - وہ خود بھی تو ہندو مت کی پیرو ہیں ، پر ہندتوا کے خلاف لڑائی کے ہر اول دستہ میں کھڑی ہیں دادری واحد وجہ نہیں ہے جس پر سہگل اور ساتھی چیخ اٹھے - مودی اور بھاگوت کے ہندوستان میں کلبرگی جیسے معقولیت پسند ادیب کو موت کی نیند سلایا گیا - توہم پرستی کے خلاف آواز اٹھانے والے دھابولکر کو گولی ماری گئی - فرسودہ نظریات کو ٹھوکر مار نے پر پنسارے کا بھی یہی حشر کیا گیا - بیچارے جانتے نہیں تھے کہ یہ دور عقل و ہوش کی باتوں کا نہیں ، قدیم ہندوستان میں پلاسٹک سرجری کی واہ واہی کرنے کا ہے - بیف بین کے مطالبات کی آواز میں آواز ملانے کا ہے - ہمارے کئی علماء بھی تو یہی کر رہے ہیں - شاید مصلحت کا تقاضہ ہے - ہان کاٹجو جیسے کچھ سر پھرے ہیں - جو کچھ حوصلہ دکھا رہے ہیں - ورنہ ماحول تو ایسا ہے کہ لاکھ مسلمان مر جائیں ، ایک گاے نہیں کٹنی چاہیے - ہر طرف بیف کا شور ہے - ایک سو تیس کروڑ کے ملک میں کوئی دوسرا مسلہ ہی نہیں - ڈیڑھ سال سے یہی کچھ ہو رہا ہے - کوئی ٹھوس کام نہیں - کبھی بیف تو کبھی یوگا - کبھی لو جہاد تو کبھی گھر واپسی - کبھی ہندوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کے مشورے کوئی یہ نہیں پوچھ رہا ہے کہ دال دو سو روپے کیلو کیوں ہو گئی - پیاز کیوں رلا رہی ہے - کسان کیوں مر رہے ہیں - کم بارش سے کیسے نمٹا جائیگا - للت گیٹ کا کیا ہوا - اور وہ وعدے کہاں گئے - باتیں ہو رہی ہیں تو صرف بیف کی - دادری کی غنڈہ گردی اب سڑکوں ، چوراہوں تک محدود نہیں رہی - قانون ساز ایوانوں تک پہنچ چکی ہے - جموں و کشمیر اسمبلی میں ایک آزاد رکن کو پیٹ دیا گیا - ایسے واقعات سے وادی میں احساس بیگانگی پھر بڑھنے لگا - کہیں یہ سوال بھی اٹھنے لگے ہیں کہ کیا دو قومی نظریہ ہی صحیح تھا جسے اندرا گاندھی نے خلیج بنگال میں ڈبونے کا دعوی کیا تھا - یہ حالات کوئی دل خوش کن تصویر پیش نہیں کرتے - بلکہ ڈراتے ہیں، بعد امنی سے ، نراج سے ، دہشت گردی سے - دہشت گردی جو ظلم اور نا انصافی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے - زعفرانیوں کی نادانیاں نہیں روکیں تو کچھ نہ کچھ گل ضرور کھلا ینگی -اور اس کا خمیازہصرف سنگھیوں کو نہیں ، پورے ملک کو بھگتنا پڑے گا نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو

No comments:

Post a Comment